کراچی( VOK NEW NEWTWORK) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بُلٹ نہیں بلکہ بیلٹ کی ضرورت ہے، کشمیریوں کو ووٹ کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی اور پاکستان نیوی نے اپنے بحری بیڑے میں پی ایم ایس کشمیر نامی جہاز شامل کر کے جموں و کشمیر کے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ یہ بات انہوں نے کراچی میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز اور بحریہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام نویں مشترکہ عالمی میری ٹائم کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ کانفرنس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل امجد خان نیازی، بلیو اکانامی کے بانی گنٹر پاولی، ڈائریکٹر جنرل نیما، وائس ایڈمرل عبدالحلیم اور دیگر مقررین نے خطاب کیا جبکہ کانفرنس میں بین الاقوامی شرکاء کی بڑی تعداد شامل تھی۔ صدر آزاد کشمیر نے بین الاقوامی میری ٹائم کانفرنس کے شرکاء پر زور دیا کے وہ کشمیریوں کو نسل کشی سے بچانے، بھارتی حکومت کے انسانیت کے خلاف بد ترین جرائم اور کشمیریوں کی زمین پر بھارتی ہندوؤں کی غیر قانونی آباد کاری کے خلاف اپنی آواز بلند کریں کیوں کہ کشمیر یوں کو ان کا پیدائشی حق دیئے بغیر علاقائی امن و سلامتی ہمیشہ خطرات سے دو چار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ارد گرد پھیلا گہرا نیلا سمندر سونے کی ایسی کان ہے جس کا درست استعمال ملک کو معاشی ترقی کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔ ہماری ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحلی پٹی اور دو لاکھ نوے ہزار مربع کلومیٹر سمندری علاقہ جہاں ہمارا دفاعی حصار ہے وہاں درست اور دانشمندانہ منصوبہ بندی سے قدرت کے اس بیش بہا خزانے کو سمندری تجارت کے لیے استعمال کر کے ہم زمینی اور سمندری معیشت کو ترقی دے کر اس عشرے کے آخر تک ملک کی مجموعی معاشی پیداوار کو ایک کھرب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا کیونکہ ہمارا ملک کوئی لینڈ لاک ملک نہیں بلکہ ایسا خطہ ہے جس کے صحن میں بحر ہند بہتا ہے جو پاکستان کو خطہ کے کئی دوسرے ممالک سے جوڑتا ہے جن سے تجارتی روابط بڑھا کر ملک کو معاشی ترقی کے معراج مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس دو بندر گاہیں ہیں ایک کراچی پورٹ اور دوسرا گوادر پورٹ۔ گوادر پورٹ اگرچہ بڑی بندر گاہ ہے لیکن وہ ترقی کی ابتدائی مراحل طے کر رہی ہے۔ سمندر تجارت کو فروغ دینے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم جیوانی، گڈانی، اومارا اور پسنی جیسے علاقوں میں نئے پورٹس اور بندر گاہیں تعمیر کریں کیونکہ جب پاکستان اور مغربی ایشیا کی معیشتیں ترقی کریں گی تو ہمیں ایسے پورٹس اور بندر گاہوں کی شدید ضرورت محسوس ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ساحلی پٹی اور علاقائی سمندر کے علاوہ پاکستان کے خصوصی معاشی زون اور گہرے سمندری وسائل سے مالا مال ہیں اور ان وسائل کو ملک کی معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض ایک خوش خیالی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جو جلد وقوع پذیر ہونے والی ہے۔ ہمارے سمندر تیل، گیس، معدنیات، سلیٹی پتھر، حیاتیاتی تنوع، خوراک اور دوسرے وسائل سے بھر پور ہیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ قومی سطح پر ایک کمیشن یا ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو خصوصی معاشی زون اور اس سے باہر سمندری وسائل کے استعمال اور بلیو اکانامی کے فروغ کا ایک واضح نقشہ اور منصوبہ تیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب بلیو اکانامی فروغ پائے گی تو پاکستان کی خوب صورت ساحلی پٹی میں سیاحت سے جڑی کئی صنعتیں وجود میں آئیں گی۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان کی پچانوے فیصد بین الاقوامی تجارت سمندر کے راستے سے ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان شپنگ کارپوریشن کے ذریعے صرف دس فیصدیہ تجارت ہوتی ہے اور باقی دوسرے ملکوں کے جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس سیکٹر میں نج کاری اور نجی شعبے کی شمولیت سے ہم جہاز رانی کے شعبہ کو ترقی کی ایک نئی جہت دے سکتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب ہمارا تجارتی حجم بڑھے گا سیاحت کو فروغ ملے گا اور مجموعی معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تو مزید زیادہ اور بہتر بحری جہازوں کی ضرورت محسوس ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ فروغ پذیر بلیو اکانامی کی ضرورت کے پیش نظر ہماری مرچینٹ نیوی کو اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا ہو گا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بلیو اکانامی کو مزید وسعت دینے کے لیے ہمیں چین اور روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے سے منسلک ممالک کے ساتھ تعلقات اور اعتماد سازی کو بہتر بنانا ہو گا اور شعوری سفارتی کوششوں سے سی پیک کے حوالے سے مغربی ممالک کے تحفظات کو دور کرنا ہو گا کیونکہ بلیو اکانامی کی اٹھان کے لیے ہمیں مشرق، مغرب ، شمال اور جنوب کے ممالک اور کاروباری اکائیوں کی حمایت درکار ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہم گوادر بندر گاہ کو چہاہ بہار ، بندر عباس، دوبئی پورٹ اور دیگر بندرگاہوں کی جڑواں بندرگاہ کے طور پر متعارف کروانا ہو گا اور اس تعاون کو جبوتی، سری لنکا اور سنگاپور تک لے جانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہماری سمندری معیشت ترقی کرے گی تو سمندری تحفظ اور سلامتی کی ضروریات بھی بڑھ جائیں گی کیوں کہ سمندری سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہمیں سمندری تجارتی راستوں اور تجارتی اثاثوں کو بھی ہر قسم کی جارحیت، دہشتگردی، بحری ڈکیٹیوں، منشیات کی سمگلنگ جیسے بین الاقوامی جرائم سے محفوظ بنانا ہو گا اور اس مقصد کے لیئے ہماری نیوی پہلے ہی مناسب اقدامات کر رہی ہے۔