ملک میں ہونے والی مسلسل تباہ کن موسلا دھار بارش کے بعد سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے سیلاب زدہ اضلاع میں پھنسے سینکڑوں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منقتل کرنے اور ان کی بھرپور مدد کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
مون سون کی مسلسل تباہ کن بارشوں سے ملک بھر میں کئی افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ سیلابی صورت حال سے دیہات اور شہروں کا نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے اور سینکڑوں کچی آبادیاں زیر آب آ چکی ہیں۔
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ رواں برس بارش نے سندھ اور بلوچستان میں 30 برس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے
۔
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں مون سون بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرتے ہوئے 4 اگست تک رپورٹ طلب کی تھی۔
بلوچستان
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق صوبے کے شہر نوشکی میں گزشتہ رات ہونے والی بارش کے باعث بڑے پیمانے پر سیلاب آیا ہے اور اس کے بعد سیکڑوں افراد مکانات پانی میں بہہ جانے کے بعد کھلے آسمان تلے پھنسے ہوئے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق بلوچستان میں یکم جولائی سے 467 فیصد اضافی غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں۔
بلوچستان کے 29 اضلاع بالخصوص لسبیلہ، کیچ، کوئٹہ، سبی، خضدار اور کوہلو اس شدید بارش اور اس کے بعد آنے والے سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں بشمول حب، گڈانی، بیلہ، دودار اور جھل مگسی میں پانچ طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے اوتھل میں 4 گاؤں کے 2 ہزار 300 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرکے انہیں پکا ہوا کھانا اور ضروری اشیا فراہم کی گئی ہیں۔
بیان کے مطابق کراچی اور کوئٹہ کو ملانے والی این-25 ہائی وے ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے جو پل گرنے کی وجہ سے 4 مقامات پر بند تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ساتھ تعاون کے بعد زیادہ تر علاقوں خصوصاً ضلع لسبیلہ میں ٹیلی کمیونیکیشن لائنیں بھی بحال کر دی گئی ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج کی ڈی واٹرنگ ٹیموں نے گوادر کے علاقے کو کلیئر کر دیا ہے جبکہ اگور کے مقام پر بلاک ہونے والی کوسٹل ہائی وے بھی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ جھل مگسی میں آرمی ایوی ایشن کے 4 ہیلی کاپٹروں نے راشن اور ادویات سمیت 1.3 ٹن امدادی سامان پہنچایا اور علاقے میں پھنسے 200 افراد کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جبکہ بارشوں میں تباہ ہونے والی دو سڑکوں کی مرمت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ خضدار کے مولا دریا میں پانی کی سطح اب بھی زیادہ ہے اور پانی کم ہونے کے بعد ایم 8 موٹروے کی بحالی پر دوبارہ کام شروع کیا جائے گا۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ چمن، لسبیلہ، جھو، قلعہ سیف اللہ، زیارت اور کوئٹہ میں فوج، فرنٹیئر کور اور پاکستان کوسٹ گارڈ کی جانب سے ریسکیو اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
سندھ
آئی ایس پی آر نے کہا کہ کراچی میں بھی مسلح افواج کی ڈی واٹرنگ ٹیموں کو تعینات کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹھٹہ کے علاقے میں گھارو گرڈ اسٹیشن جو پانی سے بھر گیا تھا اس کو فوج کی ڈی واٹرنگ ٹیموں نے صاف کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ، جامشورو میں 300 افراد کو نکالا گیا ہے اور اب امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ دادو اور خیرپور کے شہریوں کو بھی راشن اور ادویات بھی کی فراہم کی جا رہی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ لٹھ ڈیم کے اوور فلو کی وجہ سے ایم 9 موٹر وے مختلف مقامات پر زیر آب آگئی ہے، سڑک کو کلیئر کرنے کے لیے بھاری مشینری کے ساتھ پانی نکالنے والی ٹیموں کو تعینات کیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان
آئی ایس پی آر نے کہا کہ کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی جانب سے متعدد لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑکوں کو کلیئر کرنے کے بعد قراقرم ہائی وے اور جگلوٹ اسکردو روڈ کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
ضلع غذر کا اچانک سیلاب کی وجہ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، مواصلات کا بنیادی ڈھانچہ بھی خراب ہوگیا ہے جبکہ مقامی باشندوں کو خوراک اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔
خیبر پختونخواہ
آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے علاقے ٹانک، چترال اور صوابی بارشوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاک آرمی، نیوی اور ایف سی، رینجرز کے دستے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں میں سول انتظامیہ اور مقامی آبادی کی مسلسل مدد کر رہے ہیں۔
چترال-مستوج اور ٹانک-گومل زام ڈیم کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔