54 بچوں کی وجہ سے مشہور ہونے والے نوشکی کے رہائشی عبدالمجید مینگل کی بدھ کو وفات ہو گئی ہے۔
عبدالمجید اور ان کے بڑے خاندان کے بارے میں پہلی مرتبہ خبر سنہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے موقع پر منظر عام پر آئی تھیں۔
ان کے بیٹے شاہ ولی مینگل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد کی وفات عارضہ قلب کے باعث ہوئی۔
پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور عبدالمجید مینگل افغانستان سے متصل بلوچستان کے ضلع نوشکی کے گاؤں کلی مینگل کے رہائشی تھے۔
نوشکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔
وفات کے وقت ان کی عمر 75 برس تھی اور وہ اب تک ڈرائیونگ کر رہے تھے۔
عبدالمجید نے پہلی شادی 18 سال کی عمر میں کی تھی۔
اُنھوں نے چھ شادیاں کی تھیں جن میں سے دو بیویاں ان کی زندگی میں وفات پا چکی تھی۔
عبدالمجید کے 54 بچوں میں سے 12 بچے بھی ان کی زندگی میں وفات پا گئے تھے جبکہ 42 بچے ابھی حیات ہیں جن میں 22 بیٹے اور 20 بیٹیاں ہیں۔
سنہ 2017 کی مردم شماری سے پہلے کوئٹہ شہر کے رہائشی جان محمد خلجی سب سے زیادہ بچوں کے والد ہونے کے دعویدار تھے جن کے ہاں 2017 تک 36 بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔
ان کے بیٹے شاہ ولی نے بتایا کہ ان کے 12 بہن بھائی والد کی زندگی میں وفات پا گئے تھے جبکہ 42 بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کو پوری کرنے کے لیے ان کے والد آخری دم تک کوشاں رہے۔
’54 بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن ہمارے والد عبدالمجید مینگل نے اپنی بساط کے مطابق ہماری ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے کوشش کرتے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد اُنھیں پڑھانے اور ان کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زندگی بھر محنت مشقت کرتے تھے۔
’ان کی ایک زمباد گاڑی تھی۔ بڑھاپے کے باوجود وہ اپنی موت سے پانچ روز پہلے تک اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے گاڑی کو چلاتے رہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ بڑے خاندان کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اُن کے والد نے آرام نہیں دیکھا بلکہ ہم نے ان کو ہر وقت تگ و دو کرتے دیکھا۔
شاہ ولی نے کہا کہ اُنھوں نے سنا ہے کہ باقی ممالک میں بڑے خاندانوں کو حکومتوں کی جانب سے مراعات دی جاتی ہیں لیکن ان کا خاندان یہاں سب سے بڑا ہونے کے باوجود مراعات سے محروم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ان کے والد نے ان سب کو تعلیم دلوائی۔ ’ہم میں سے کوئی بی اے ہے اور کوئی میٹرک لیکن ہمارے پاس مناسب روزگار نہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے والد کا مناسب علاج نہیں کروا سکے۔‘
شاہ ولی نے کہا کہ رواں سال مون سون کے تباہ کن سیلاب کے باعث ان کے گھر بھی تباہ ہو گئے۔
’ہمارے پاس گھروں کو بنانے کی سکت نہیں جبکہ سرکار کی جانب سے اب تک گھروں کی تعمیر کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے ہمارے بڑے خاندان کی مشکلات دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔‘