اسلام آباد پنجاب ، خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حکومتوں نےمشترکہ پریس کانفرنس کرتےہوئے وفاقی حکومت کےخلاف شکایات کے انبار لگا دیئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےوزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا کہ ہمارے فنانشل مسائل ہیں ، بار بار کہا کہ مگر حل نہ ہوئے۔ 1.3 ٹریلین کا بجٹ اس بار خیبر پختونخوا میں دیا ہے۔ یہ عمران خان کے کہنے پر اتنا زیادہ بجٹ رکھا ، بدقسمتی سے وہ پیسے ہمیں نہ مل سکے۔انہوں نےحکومت پر الزام عائد کیا کہ یہ کوشش کررہےہیں کہ ہمیں دیوار سے لگادے۔محمود خان کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی کے پراجیکٹ سارے واش آؤٹ ہوگئے۔ این ایچ پی کے 61 بلین وفاق پر بقایا جات ہیں۔ 189 بلین کے ہمارے کل ملاکر وفاق پر بقایا جات ہیں۔خیبرپختونخوا کا جو حصہ ہے وہ ہمیں دیا جائے ورنہ ہماری حکومت ڈیفالٹ کر جائے گی ،محمود خان نے کہا کہ ہم تنخواہیں نہیں دے پا رہے ، جب سے وفاقی حکومت آئی ہے ہم اس وقت سے مشکل سے گزر رہے ہیں ، ہمیں فاٹا کے صحت کارڈکےپیسے نہیں مل رہے، کے پی کا جو حصہ ہے اور جو وفاق پر ہمارے بقایا جات ہیں وہ ہمیں دیئے جائیں، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہے، خیبرپختونخوا کا جو حصہ ہے وہ ہمیں دیا جائے ورنہ ہماری حکومت ڈیفالٹ کر جائے گی۔ سیلاب میں ہمارے صوبے کے لئے 10ارب کا اعلان ہوا جس میں سے ایک پائی بھی ہمیں نہیں دی گئی ، کیا خیبرپختونخوا پاکستان کا حصہ نہیں ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے مالی مسائل کے بارے میں وفاقی حکومت کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن وفاقی حکومت مالی اعتبار سےہماری کوئی مدد نہیں کررہی ، ہمارے پاس تمام آپشنز موجود ہیں ، کچھ پتے ہم نے دکھا دیئے ہیں کچھ پاس موجود ہیں جو بعد میں دکھائیں گے۔انہوں نےسوال کیا کہ کیا خیبرپختونخوا پاکستان کا حصہ نہیں؟ اگرہمارا حق نہیں دیا تو قومی اسمبلی کے باہر دھرنا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں اپوزیشن کو بھی کہا ہے ، وہ بھی احتجاج کے لیے تیار ہے۔پختونخوا کے تمام عوام کو یہاں لاکر احتجاج کریں گے۔
پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری نے کہا کہ 167.4بلین روپے پنجاب کے ہیں جو وفاق نہیں دے رہا۔ اعلانات ہوتے رہےلیکن سیلابی صورتحال میں پنجاب میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ عمران خان کے ٹیلی تھون کے ذریعے 14 ارب روپے دے گئے۔ سندھ کے بھائیوں اور بلوچستان کے بھائیوں کا سیلاب میں نقصان ہوا ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں بھی سیلاب نے تباہی مچائی۔انہوں نے کہا کہ اس وقت وفاقی حکومت کا صوبوں کیساتھ تعاون بہت کم ہے۔ایسا لگتاہے کہ ہم الگ الگ ملک میں رہتے ہیں۔ مالی معاملات میں ہمیں وفاق سے کوئی سپورٹ نہیں مل رہی۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشیدنے پریس کانفرنس میں وفاق کے خلاف شکایات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بلاک ایلوکیشن 18 ارب کا تھا۔ہماری حکومت کا پورٹ فولیو 48 ارب تک گیا۔ گلگت بلتستان کا بجٹ 40 ارب سے 25 ارب کردیا گیا ہے۔ تاریخ میں ایسی دشمنی اس خطے کیساتھ نہیں ہوئی۔ جو بھی سیاسی حکومت آئی انہوں نےگلگت بلتستان سے ایسی دشمنی نہیں کی۔ انہوں نے آتے ہی ہمارا ترقیاتی بجٹ کاٹا۔خالد خورشید نے مزید کہا کہ آج 6 مہینے ہوگئے ہیں، اے ڈی پی کے 2 ارب 80 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ہم ہر سال قدرتی آفت کا سامنا کررہے ہیں۔ 2 ارب میں ہم کیسے صوبہ چلائیں۔اسکردو شہر میں 21 سے 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے۔ اس سال ہمارے پاس پیسے نہیں کہ ڈی جی سیٹ چلائیں۔ ہم نے ریونیو اتھارٹی بنائی، انہوں نے مخالفت کردی۔ ہم بجلی اور گندم کہاں سے پوری کریں گے؟انہوں نے کہا کہ سیلاب میں 3 ارب روپے کا اعلان کیا گیا، جو لسٹ میں نے دیکھی اس میں گلگت بلتستان شامل ہی نہیں ۔ انہوں نے کہا تھا 40 ارب روپے دینگے۔ اس وقت گلگت کے اندر 40 مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہم لوگوں کیساتھ احتجاجی مظاہروں پر جارہے ہیں۔
وزیر خزانہ آزاد کشمیر عبدالماجد خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کشمیر کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا تھا ہم آتے ہی معیشت کو اوپر لے جائیں گے۔ عمران خان کی حکومت میں 6 ہزار ارب ایف بی آر نے اکھٹا کیا۔ انہوں نے ہمارا شیئر ہر صورت میں دینا ہی دینا ہے۔ انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے کشمیر کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلی بار لائن آف کنٹرول پر بیٹھے عوام کو ہیلتھ کارڈ کا منصوبہ شروع کیا ، انہوں نے آتے ساتھ اسے بھی ختم کردیا۔ نالہ لئی کے لیے 70 ارب دے سکتے ہیں مگر ریاست کشمیر کے لیے 26 ارب حکومت کے پاس نہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ وفاقی حکومت سے پولیس کی اپیل کی وہ بھی نہیں دی گئی۔
حکومتیں برس پڑیں