مظفرآباد( وائس آف کشمیر نیوز) آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم راولاکوٹ کے تعمیراتی کام پر حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس عدالت العالیہ نے رٹ پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے تعمیراتی کام روکنے کا حکم دے دیا اور فریقین کو 11جنوری کو عدالت طلب کر لیا ہے۔ اہلیان پڑاٹ پوٹھی کی جانب سے رٹ پٹیشن معروف قانون دان سردار جاوید ناز ایڈووکیٹ نے دائر کی، جبکہ پٹیشنرز میں حارث قدیر، شوکت حسین، خالد محمود اور دیگر شامل ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت راولاکوٹ کے موضع پڑاٹ اور ضلع سدھنوتی کے موضع پلندری میں ہاؤسنگ سکیم کا تعمیراتی کام شروع کیا گیا تھا۔ اہلیان پڑاٹ، پوٹھی کا کہنا ہے کہ کمیونٹی جنگل کی کمرشل اراضی کو 2ہزار روپے فی کنال کے حساب سے ہاؤسنگ اسکیم کو الاٹ کیا گیا ہے۔ تمام تر عالمی اور ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ماحول دشمن منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کیلئے 100کنال ریزرو جنگل کی کمرشل اراضی2لاکھ روپے میں الاٹ کی گئی ہے۔ اراضی کی الاٹمنٹ کیلئے محکمہ جنگلات کے شدید تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے اورمحکمہ جنگلات سے این او سی حاصل کئے بغیر یہ اراضی الاٹ کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب تعمیر شدہ مکانات کی الاٹمنٹ کیلئے وصول کی گئی درخواستوں کے ساتھ تاحال وزارت امور کشمیر کے دعوؤں کے مطابق 2ارب25کروڑ روپے کی رقم وصول کی جا چکی ہے۔ اہل علاقہ کا موقف ہے کہ راولاکوٹ ٹاؤن ایریا میں شہر کے اطراف 3سے 4کلومیٹر کی حدود میں لب روڈ فی مرلہ اراضی کی اوسط قیمت 4سے 5لاکھ روپے فی مرلہ ہے۔ محکمہ جنگلات نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ اراضی پر قیمتی شاہی درخت موجود ہیں۔ پاکستان میں جنگل کا رقبہ پہلے ہی بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے۔ راولاکوٹ شہر کے نواح میں جنگل کی اراضی کو تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال میں لانے کے سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہونگے۔ فاریسٹ ایکٹ2017ء کے مطابق جنگل کا رقبہ صرف قومی مقاصد کیلئے متبادل اراضی فراہم کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔ محکمہ جنگلات نے اپنے تحفظات میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘پاکستان بین الاقوامی معاہدات کا Signatoryہے اور ایسے اقدامات حکومت پاکستان کیلئے بھی نہ صرف بدنامی کا باعث ہونگے بلکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی ساکھ بھی شدید متاثر ہوگی۔’نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ ‘رقبہ زیر بحث اندرون شہر ہونے کے باعث کمرشل رقبہ ہے۔ جو اس وقت محکمہ جنگلات نے کمیونٹی فاریسٹ کے طور پر ریزرو کر رکھا ہے، جس کی قیمت خالصہ سرکار ظاہر کرتے ہوئے تقریباً2ہزار روپے فی کنال تعین کی گئی ہے، جو انتہائی کم ہے اور بادی النظر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان کو مالی فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔’بورڈ آف ریونیو نے دو الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے راولاکوٹ کے موضع پڑاٹ اور سدھنوتی کے موضع پلندری سے اراضی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کیلئے الاٹ کی ہے۔ ستمبر2020ء کو جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق پلندری میں الاٹ کی گئی 70کنال 7مرلے سرکاری اراضی (خالصہ سرکار) خسرہ نمبر2179 فی کنال2ہزار روپے کے حساب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے سلسلہ میں منظور کی گئی ہے، جبکہ راولاکوٹ موضع پڑاٹ میں خسرہ نمبر556سے 37کنال2مرلے اراضی خالصہ سرکار 2ہزار روپے فی کنال کے حساب سے منظور کی گئی ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات نے بعد ازاں خالصہ سرکار ظاہر کر کے منظور کی گئی37کنال 2مرلے اراضی پر اپنا دعویٰ ظاہر کرتے ہوئے نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔ اپریل2021ء کو موضع پڑاٹ میں ہی خسرہ نمبر 556سے 62کنال18مرلے مزید اراضی2ہزار روپے فی کنال کے حساب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے منظور کی گئی ہے، جبکہ اس کے متبادل کے طور پر محکمہ جنگلات کو تحصیل ہجیرہ کے ایک دور دراز علاقے کھڑانج میں اراضی منتقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ کھڑانج کے سیاسی حلقوں کے اعتراضات کے بعد تحصیل تھوراڑ کے ایک دور دراز علاقے بوسہ گلہ سے محکمہ جنگلات کو متبادل اراضی منتقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ تاہم بوسہ گلہ میں بھی محکمہ جنگلات نے تاحال اس اراضی کا قبضہ حاصل نہیں کیا۔ محکمہ مال کے اپنے ریکارڈ کے مطابق بھی موضع پڑاٹ کے خسرہ نمبر556کی 319کنال10مرلے اراضی محکمہ جنگلات کے زیر قبضہ ریزرو جنگل کی اراضی ہے۔ تاہم بورڈ آف ریونیو نے مبینہ جعل سازی کے ذریعے سے 37کنال2مرلے اراضی کو خالصہ سرکار ظاہر کر کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کو الاٹ کی گئی ہے۔ یف جی ای ایچ اے کی جانب سے متعین راولاکوٹ کے پراجیکٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقبول احمد گوندل نے بتایا ہے کہ موضع پڑاٹ میں 100کنال اراضی ہے، جس پر 100مکانات تعمیر کئے جائیں گے، جن میں فلیٹس اور 5مرلہ کے مکانات شامل ہونگے۔ انکا کہنا تھا کہ ان مکانات میں سے 40پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین، 40عام شہریوں اور 10بیرون ریاست کام کرنے والے سرکاری ملازمین کیلئے مختص ہونگے، جو جمع ہونے والے درخواستوں میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے انہیں دیئے جائیں گے۔ایف جی ای ایچ اے اور پی پی ایچ کی جانب سے جاری کردہ اشتہار کے مطابق 5مرلہ گھروں کے علاوہ ٹائپ سی اور ٹائپ ڈی فلیٹس تعمیر کئے جائیں گے۔ درخواستوں کے ساتھ 25ہزار روپے فیس جمع کروانے ضروری ہوگی اور ٹائپ سی فلیٹ کی قیمت 53لاکھ روپے، ٹائپ ڈی فلیٹ کی قیمت43لاکھ روپے، جبکہ 5مرلہ مکان کی قیمت45لاکھ روپے ہوگی، تینوں طرز کے مکانات دو بیڈ روم، لاؤنج، کچن اور دو واش رومز پر مبنی ہونگے۔ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق 50فیصد مکانات مقامی حکومت کے سرکاری ملازمین، 40فیصد عام شہریوں اور10فیصد وفاقی اور صوبائی محکموں میں کام کرنے والے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ملازمین کیلئے کو الاٹ کئے جائیں گے۔ ‘دی نیوز’ سے بات کرتے ہوئے وزارت امور کشمیر کے عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے90ہزار افراد کی درخواست موصول ہوئی ہیں۔ یہ گفتگو انہوں نے اپریل 2019ء میں کی تھی۔ تاہم نومبر2020ء تک درخواستیں وصول کی جا رہی تھیں، آخری تاریخ تک جمع ہونے والی مجموعی درخواستوں کی تفصیلات سرکاری سطح سے فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ 2019ء میں فراہم کردہ اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو درخواستوں کے ہمراہ وصول کی گئی مجموعی رقم 2ارب 25کروڑ روپے بنتی ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا۔ حکومت زمین کی فراہمی اور نگرانی کے اقدامات کرے گی، جبکہ سرمایہ کاروں کو 3لاکھ روپے فی مکان کی سبسڈی کے علاوہ ٹیکس چھوٹ بھی دی جائے گی۔ بینک سرمایہ کاروں کو قرضہ فراہم کرینگے اور مکانات جن افراد کو الاٹ کئے جائیں گے وہ آسان اقساط میں مکانات کی قیمت ادا کرینگے۔ ڈپٹی کمشنر پونچھ بدر منیر کا کہنا تھا کہ اراضی کی فراہمی بورڈ آف ریونیو اور محکمہ مال کی ذمہ داری تھی۔ بورڈ آف ریونیو کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہم نے اراضی کی نشاندہی کر کے متعلقہ حکام کے حوالے کر دی ہے۔ منصوبہ سے متعلق دیگر معلومات پی پی ایچ ہی فراہم کر سکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے پاس اس منصوبہ سے متعلق اراضی کے نوٹیفکیشن کے علاوہ کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ مقامی شہریوں نے اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ایک ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس منصوبے کو روکنے کیلئے قانونی چارہ جوئی سمیت احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک جانب ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات پر عالمی سطح پر امداد حاصل کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے، جبکہ دوسری جانب جنگلات کی اراضی کو کوڑیوں کے دام پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر کیلئے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ جنگل کی اراضی کو بچانے کیلئے حکومت کی متعین کردہ رقم سے 5گنا زائد رقم مقامی کمیونٹی سرکاری خزانے میں جمع کروانے کو تیار ہے۔ غریبوں کو مکان دینے کے نام پر پراپرٹی مافیا کو مالی فائدے پہنچانے کے اس منصوبے کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور لوگوں کی جمع شدہ رقوم واپس کی جائیں۔ اگر ہاؤسنگ منصوبہ تعمیر کرنا ناگزیر ہے تو اسے کسی متبادل جگہ پر پرائیویٹ اراضی یا پھر سرکاری اراضی پر تعمیر کیا جائے۔