اسلام آباد(نیوز ایجنسی ) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ریٹائرڈ ججز اور جنرلز کو ملنے والی مراعات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں کمیٹی نے ریٹائرڈ ججز، جنرلز اور بیوروکریٹس کو ملنے والے پلاٹس، پینشن ودیگر مراعات کا ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ سی ڈی اے کی جانب سے ریکور کیے گئے پلاٹوں کی تفصیلات بھی منگوالیں۔نور عالم خان نے کہا کہ آڈٹ حکام آئندہ ہفتے تمام ریکارڈ فراہم کریں، ملک ڈوب رہا ہے اور یہ ہزاروں لیٹر مفت تیل انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک رکن کمیٹی کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ پچاس ہزار گاڑیوں کو مفت تیل فراہم کیا جا رہا ہے، کمیٹی نے سرکاری گاڑیوں میں مفت پٹرول استعمال ہونے کا ریکارڈ بھی مانگ لیا۔شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کو دس روپے فی کلومیٹر کے حساب سے پیسے ملتے ہیں، برجیس طاہر نے کہا کہ ملک میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ہیں انکا پیٹرول بند کیا جائے، مشاہد حسین سید نے کہا کہ سرکاری محکموں میں 5 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ نہ دی جائے، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پروٹوکول میں 20,20 گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں، شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اگر کسی کی جان کو اتنا خطرہ ہے تو گھروں میں عدالت لگائیں، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیدل چل کر آتے ہیں، کمیٹی کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ کیبنٹ کو خط لکھا جائے کہ پروٹوکول کے باعث عوام کو تکلیف نہ پہنچے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ معاہدے کے مطابق بروقت مکمل نہ کرنے پر 18 ارب ڈالر کا پاکستان کو جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ امریکی سفیر کو بتایا ہے کہ ہمیں یہ منصوبہ مکمل کرنے کی اجازت دیں یا یہ رقم دیں کہ ہم جرمانہ ادا کرسکیں۔ جس پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے وزارت خارجہ کوہدایت کی ہے کہ وزارت خارجہ امریکی سفیر کو بلا کر بتائیں کہ پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن میں 18 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا، امریکہ ہمیں 18 ارب ڈالر کا ریلیف دے یا ہمیں اس معاہدے پر عملدرآمد کی اجازت دے۔اجلاس میں 322 ارب روپے گیس انفرانسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس نان یوٹیلائزیشن کا معاملہ زیر غور آیا جس پر رکن پی اے سی برجیس طاہر نے کہا کہ 325 ارب روپے گیس انفرانسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مدمیں وصول کیے مگر خرچ 2 ارب کیے، جن پراجیکٹس کیلئے انہوں نے عوام سے پیسے وصول کیے ان پر کوئی پیشرفت کریں۔رکن کمیٹی سید حسین طارق نے کہا کہ 322 ارب پڑے ہیں مگر پروجیکٹ نہیں چل رہے، اگر ہم ایران کا پراجیکٹ مکمل کرکے گیس نہیں لیتے تو پاکستان پر جرمانے ہوں گے، جس پرسیکرٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی کا 325 ارب فنانس کے پاس ہے پیٹرولیم ڈویژن کو2.8 ارب ملا، ٹاپی منصوبے میں سیفٹی اور سکیورٹی کا ایشو ہے، افغانستان میں پائپ لائن بچھانے کے بعد سیفٹی اور سکیورٹی مسئلہ ہے، سکیورٹی گارنٹی مانگی جاتی ہے، پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر امریکا سے بھی بات کی ہے اس میں ریلیف بھی مانگا ہےاور بتایا ہے کہ اتنی بڑی پنلٹی نہیں دے سکتے، ایران سے گیس پر پابندی ہے ہم وہ لے نہیں سکتے، روس کیساتھ بھی تین چار ماہ میں کافی اجلاس ہو چکے ہیں۔اجلاس میں چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ نئے گیس کنکشنز پر پابندی نہیں ہونی چا ہیےبرجیس طاہر نے کہاکہ میٹر نہیں لگائے جارہے جس کی وجہ سے گیس چوری ہورہی ہے، نور عالم نے گیس کمپنیوں کو ہدایت کی کہ گیس چوری میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کرائیں، پی اے سی نے ہدایت کی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کراچی میں گیس چوری میں ملوث ہاؤسنگ اسکیموں کے خلاف کارروائی کرے، سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ گورننس اور منیجمنٹ کے ایشوز کی وجہ سے مسائل آرہے ہیں، اس سال دسمبر تک گیس چوری پر قابو پالیں گے۔ پی اے سی نے ہدایت کی گیس کے نئے کنکشن پر پابندی فوری ہٹادی جائے۔چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیٹرول پمپوں کی نئی سائٹس پر پابندی ختم کی جائے۔ بلوچستان، ہزارہ اور پشاور سمیت ہرجگہ پر پٹرول پمپ لگانے پر پابندی ختم کی جائے، پنجاب اور سندھ میں پیٹرول پمپ سائٹس پر پابندی نہیں تو دیگر صوبوں میں پابندی کیوں؟ اوگرا کو ہدایت کی تھی کہ پیٹرول کی نئی سائٹس پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ پی ایس او سرکاری ادارہ ہے،اسے فروغ دیں اور ڈیفالٹر نجی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔چیئرمین اوگرا نے کہا کہ تمام آئل ریفائنریوں کا آڈٹ جون تک مکمل کرلیا جائے گا، پی اے سی نے ہدایت کی کہ ایک ماہ کے اندر آئل ریفائنریوں کا آڈٹ مکمل کریں، چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہوں اور عوام کے حقوق کیلئے جدو جہد کرتا ہوں، وزارت پیٹرولیم کے حکام 70 سے 80 لاکھ تنخواہ لیتے ہیں، آپ کو عوام کے حقوق کے لئے لڑنا چاہئے۔
پارلیمانی کمیٹی