اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل 11 بجے سنایا جائے گا۔
عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کی سزا کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا پبلک پراسیکیوٹر کو بھی پہلے نوٹس کیا جانا ضروری ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ شکایت تو الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی ریاست نے نہیں، ٹرائل کورٹ میں آپ نے یہ بات نہیں کی، آپ پہلی بار یہ کہہ رہے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بھارتی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی کو پرائیویٹ کمپلینٹ میں 2 سال کی سزا ہوئی، راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جوخارج کر دی گئی، عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں۔
عمران خان کے وکیل کا نواز شریف کے کیس کا حوالہ
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا لیکن کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں۔
لطیف کھوسہ نے نواز شریف کی سزا معطلی کا حکم بحال رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹہ اس دن لیا، 2 گھنٹے آج لے گئے۔
ٹیسٹ میچ کا زمانہ چلا گیا اب ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا دور ہے، جسٹس عامر فاروق
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا میں کوئی ایسا سیکشن نہیں پڑھوں گا جو نیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بھی دو بار یہاں اور ایک بار سپریم کورٹ میں دلائل دے چکے ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن اور سیشن جج کو ولن بنایا ہوا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی وہاں مت جائیں، سزا معطلی پر ہی دلائل جاری رکھیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جسٹس کھوسہ نے کہا تھا ٹیسٹ میچ کا زمانہ چلا گیا اب ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا دور ہے، لطیف کھوسہ صاحب نے بڑے شائستہ انداز میں کہا کہ مختصر کریں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لطیف کھوسہ نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیلئے 3 دن لیے، انہوں نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو مشقِ ستم بنا رکھا ہے، انہوں نے 6 نکات اٹھائے مجھے ان کا جواب دینا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فل کمیشن نے کمپلینٹ کی منظوری دی: امجد پرویز ایڈووکیٹ
امجد پرویز کا کہنا تھا انہوں نے بیانیہ بنا دیا ہےکہ یہ کوئی پہلا کیس ہے جس میں ملزم کو حقِ دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کیلئے اجازت نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، درحقیقت سیکرٹری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ہی شکایت دائر کرنے کی اجازت دی، الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آفس کو شکایت دائر کرنے کا کہا کسی مخصوص شخص کو نہیں، آپ کی دلیل اپنی جگہ لیکن سیکرٹری کمیشن نے خود کو متعلقہ شخص کیسے سمجھا؟ کمپلینٹ دائر کرنے کے لیے سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کیوں کہا؟ الیکشن کمیشن نے یہ نہیں کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن جو ضروری سمجھیں وہ کریں، انہوں نے دفتر کو ایسا کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن نے منظور کیا، الیکشن کمیشن کے فل کمیشن نے کمپلینٹ کی منظوری دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آفس کو آرڈر کیا، سیکرٹری ای سی کے علاوہ کیا کوئی اور بھی کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟ کیا الیکشن کمیشن کا ڈی جی لاء یہ کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا ایڈمنسٹریٹو سربراہ ہوتا ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈمنسٹریٹو معاملات رجسٹرار چلاتا ہے، چیف جسٹس کیا رجسٹرار کو کوئی کارروائی کرنے کا کہے گا یا آفس کو؟ چیف جسٹس رجسٹرار کو کہیں یا آفس کو دونوں ہی درست ہوں گے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ آفس نے مجھے خواجہ حارث کے بیان حلفی کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کی، میں آخری شخص ہوں گا جو اس پر کاؤنٹر بیان حلفی جمع کرائے، بیان حلفی کا سپریم کورٹ میں بھی تذکرہ ہوا مگر وہ آفس میں سی ایم کے ذریعے دائرنہیں ہوا، بیان حلفی ادھر ہی دوران سماعت کورٹ کو دیا گیا، میں تین ٹیبلٹس کھا کر یہاں دلائل دینے کے لیے کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ اب مزید کِس نکتے پر دلائل باقی ہیں؟ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ حقِ دفاع اور4 ماہ میں کمپلینٹ دائرکرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں، واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائیکورٹ کے آرڈرکی خلاف ورزی کی، میں بتاؤں گا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈرکی خلاف ورزی نہیں کی، ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ ملزم کے وکیل عدالت میں پیش ہوکردلائل دیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ میرے دلائل آج مکمل نہ ہوپانے کی ایک وجہ ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا نہیں نہیں، آج ہی دلائل مکمل کریں، آپ دلائل جاری رکھیں، دو نکات ہیں، جو سزا معطلی ہوتی ہے اس میں اتنی تفصیل میں نہیں جاتے، اگر دلائل کو اتنا طویل رکھیں تو پھر اپیل کا ہی فیصلہ ہو جائے گا، امجد صاحب، پانچ 10 منٹ میں آپ مکمل کر لیں۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے عدالتی نظریں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، عدالت دیکھ لے، ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف یہ کیس غلط ڈکلیئریشن کا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویز ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے محفوظ کیا۔
بعد ازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ اس کیس کا فیصلہ کل دن 11 بجے سنایا جائیگا جب کہ عدالتی عملے نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو بھی آگاہ کردیا۔