پاکستان میں آج نئی تاریخ رقم ہوگئی اور پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو 15 رکنی فل کورٹ نے آج جزوی سنا۔ عدالت نے بینچز بنانے کا حکم امتناع ختم کردیا البتہ اس کیس کی سماعت جاری رہے گی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کے بنائے “پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ” پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناع دے رکھا تھا۔

اب نئی صورتحال میں بینچز کی تشکیل چيف جسٹس دو سینیئر ججز کی مشاورت سے کریں گے۔

چیف جسٹس نے 25 ستمبر تک ہر فریق کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کو تیار ہیں، ایسا اختیار نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو۔

چیف جسٹس نے ایک موقع پر کہا کہ عدلیہ سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں غلطی ہوئی پھر عدالت نے مارشل لاء کی توثیق کی، ریکوڈک کیس میں عدالتی فیصلے سے ساڑھے 6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شفافیت آ رہی ہے تو آنے دیں، چھپا کیوں رہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے دوران سماعت کہا کہ اس ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا، اس پر چیف جسٹس بولےکہ اس طرح کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل آپ نے فنٹاسٹک طریقے سے بتا دیا، اس ایکٹ سے ادارے میں جمہوری طورپرشفافیت آئے گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی تسلیم شدہ بنیادی حق ہے، کیا پارلیمنٹ کو اُس کام کی اجازت دی جاسکتی ہے جو سپریم کورٹ خود کرسکتی ہے اور سپریم کورٹ کو ہی کرنا چاہیے؟ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر حکومت بینچز کی تشکیل اور عدالت کے انتظامی معاملات ریگولیٹ کرے گی، یہ سلسلہ پھر رکے گا نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی تو اس میں غلط کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ قانون اچھا بنا، پر پارلیمنٹ کے پاس اختیار نہیں تھا،، یہی کام 15 غیر منتخب جج کرلیں تو ٹھیک ہوگا؟

ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس ایکٹ سے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات میں تقسیم ہوئی ہے، ورنہ اگر چیف جسٹس کسی بینچ کے بنانے سے انکار کردیں، چھٹی پرچلے جائیں تو کون روک سکتا ہے؟